ضلع ڈیرہ بگٹی میں کلپر بگٹی مسوری بگٹی اور نواب اکبر بگٹی کے رشتہ دار احمدان بگٹی کی واپس

مسوری اورکلپر بگٹیوں کی ڈیرہ بگٹی میں واپسی کے بارے میں شائع شدہ ایک مضمون جو2006 میں تحریر کیا گیا تھا

 صوبہ بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی میں اب کلپر بگٹی مسوری بگٹی اور نواب اکبر بگٹی کے رشتہ دار احمدان بگٹی واپس آ نا شروع ہو چکے ہیں
 ان میں سب سے پہلے کلپر بگٹی اور ان کے سردار خان محمد وڈیرہ اور ان کے ساتھی جلال خان واپس آئے ان کے ساتھ مسوری بگٹی قبیلے کے وڈیرہ غلام قادر بھی واپس آئے مگر اس کے ساتھ ی ڈیرہ بگٹی میں اور بلوچستان کے بہت سے علاقوں میں تخریب کاری کا وارداتوں میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو گیا ہے سوئی میں راکٹوں کی بارش اب روز آنہ ہی ہونے لگی ہے اب تک کئی سو راکٹوں کو ڈیرہ بگٹی میں سوئی اور ارد گرد کے علاقوں میں سرکاری تنصیبات پر اور دیگر اہم مقامات پر پھینکا جاچکا ہے جس سے کم سے کم اربوں روپوں کا نقصان ہو چکا ہے جب کے ان گنت جانی نقصان ہوئے ہیں اس حوالے سے ڈیرہ بگٹی کے دو تھانوں میں نواب اکبر بگٹی ان کے پوتے برہمداغ بگٹی اور نواب اکبر بگٹی کے پانچ کمانڈروں وڈیرہ بنگان ، وڈیرہ آباد،محمدجان، سعید مسوری ، فضل خان، وڈیرہ خان مسوری،ہدائت شمبانی ، غلام مصطفیٰ مسوری، یار علی عرف جاوا، سمیت پندرہ افراد پر قتل اور راکٹ حملوں کے پانچ مقدمات درج کئے گئے ہیں
کلپربگٹیوں کے سربراہ خان محمد وڈیرہ بگٹی کی اپنے قبیلے کلپر بگٹی کے ساتھ سوئی اور ڈیرہ بگٹی واپسی اور ڈیرہ بگٹی میں رہائش کو اگر چہ مبصرین اور نامہ نگار بلوچستان کی تاریخ کا ایک اہم ترین باب قرار دے رہے ہیں مگر اس حوالے سے بلوچ قوم پرست رہنما ان کے حامی مبصرین اور اخبار نویس اس خوش فہمی کا اظہار کررہے ہیں کہ جلد ہی کلپر بگٹیوں مسوری بگٹیوں اور نواب اکبر بگٹی اور ان کے حامی بگٹیوں کے درمیان صلح اور صفائی ہو جائے گی جس کے نتیجے میں بگٹی قبیلے کے افراد ایک ہو جائیں گے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صلح ہی ہونا تھی تو 7 مئی1992 کو ڈیرہ بگٹی میں نواب اکبر بگٹی کے سیاسی حریف حمزہ بگٹی (جس نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر نواب اکبر بگٹی کے مقابلے میں انتخاب لڑنے کی جرات کی تھی ) کا قتل کیوں کیا گیا ؟ ہوا حمزہ بگٹی کا تعلق کلپر بگٹی قبیلے سے ہے مبینہ طور پر ایف آئی آر میں نواب سلیم اکبر بگٹی کا نام حمزہ بگٹی کے قتل کے الزام میں درج کیا گیا 2 جون 1992 کو کوئٹہ میں سلال بگٹی کو اس وقت حملہ کرکے ہلاک کردیا جب وہ کوئٹہ میں اپنے محافظوں کے ساتھ کار چلا رہے تھے
4 مارچ 1993میں ضیاء الدین ہسپتال میں زیر علاج قیدی اسد اللہ بگٹی پر حملہ کیا گیا جس میں وہ شدید زخمی ہوئے مگر علاج کے لئے رحیم یار خان جب ان کو لے جایا جا رہا تھا تو وہ زخموں کی تاب نہ لا کر ہلاک ہوگئے اس قتل کا الزام نواب اکبر بگٹی کے بیٹے جمیل بگٹی پر عائد کیا گیا اس کے بعد تو واقعات کا گویا ایک سلسلہ شروع ہوگیا وڈیرہ محمد خان بگٹی کے برادر نسبتی شیر علی کلپر بگٹیکو بعض نا معلوم افراد نے گولی مار کر ہلاک کردیا اس واقعہ کے بعد وڈیرہ کلپر بگٹی کے اہل خانہ اور قبیلے کوسخت حفاظتی انتظامات میں سوئی سے صوبہ سرحد منتقل کیا گیا کلپر بگٹیوں کا ڈیرہ بگٹی سے نکالا جانا اور ان کے خلاف نواب اکبر بگٹی کی کارروایوں کے گواہ بلوچستان کے عوام اور رہنما ہیں جس کے بعد اب کئی سالوں کے بعداب کلپر ڈیرہ بگٹی میں واپس آئے ہیں جبکہ
جبکہ ا س حوالے سے اس وقت ڈیرہ بگٹی میں سوئی اور بعض اہم مقامات پر سرکاری عمارتوں اوراہم تنصیبات کو نامعلوم دہشت گردوں کی جانب سے راکٹوں کا نشانہ بنایا گیا ہے خبروں کے مطابق شر پسندوں نے راکٹوں کے حملے مسلسل جاری رکھے ہیں ہیں جس کے نتیجے میں ڈیرہ بگٹی میں اہم اور قیمتی سرکاری تنصیبات کو نقصان پہنچا ہے جبکہ حکومت کی جانب سے اور صدر جنرل پرویزمشرف کیجانب سے ایک بار دوبارہ مذاکرات کی پیشکش کی گئی ہے جس کے جواب میں نواب اکبر بگٹی کے ترجمان اور جنرل سیکرٹری شاہد بگٹی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ نواب اکبر بگٹی کی شرط ہے کہ مذاکرات کے لئے حکومت فوری طور پر آپریشن بند کرے اس حوالے سے بات کرنے سے قبل ضروری ہے کہ ضلع ڈیرہ بگٹی اور اس کا ایک جائزہ لے لیا جائے
۔اے ڈبلیو ہیوز اپنی کتاب سرزمین بلوچستان میں صفحہ نمبر 159 پر ۔ بگٹی قبیلے کے بار ے میں لکھتے ہیں کہ بگٹی علاقہ کے شمال میں مری اور گورچانی ، جنوب میں سندھ کا سرحدی بالائی ضلع ، مشرق میں پنجاب کی سرحد اور مغرب میں قلات (سابق ریاست ) کا صوبہ کچھی ہے (ماضی میں ہمسائے قبیلوں ، ڈومبکی،جھکرانی، مری ، اور مزاری قبائل کے ساتھ ہمیشہ ہی بگٹی قبیلے کی خونی لڑائیاں ہوتی رہیں ہیں اکثر بگٹی قبیلے کے افراد اپنے ہمسایہ قبیلوں کی زمینوں اور مال پر قبضہ کرتے رہے ہیں بگٹیوں کی اس کیفیت کو انکریزوں نے بزور شمشیر کنٹرول کیا) روسی ر یسرچ اسکالر م ک پیکولین اپنی کتاب بلوچ میں لکھتے ہیں مری اپنے پڑوسی بگٹی کے ساتھ خون بہانے والی دائمی جنگوں میں مصروف ہیں اس لئے دونوں خود کو ایک دوسرے کے قدیم اور اصلی دشمن سمجھتے ہیں
اے ڈبلیو ہیوز اپنی کتاب سرزمین بلوچستان میں مزید لکھتے ہیں کہ ان کا مرکز قصبہ ڈیرہ ( ڈیرہ بگٹی )ہے ان کی چھ بڑی شاخیں اور 44 پاڑے ہیں بگٹی قبیلے کے بارے میں جسٹس (ر) میر خدا بخش مری بجارانی اپنی کتاب سرچ لائٹ آن بلوچس اینڈ بلوچستانSEARCHLIGHTS ON
BALOCHES AND BALOCHISTAN میں لکھتے ہیں کہ یہ ر ند بلوچوں میں سے ہے بگٹی قبیلے کے بارے میں جسٹس (ر) میر خدا بخش مری بجارانی اپنی کتاب سرچ لائٹ آن بلوچس اینڈ بلوچستان SEARCHLIGHTS ON BALOCHES AND BALOCHISTAN کے صفحہ نمبر338 پر لکھتے ہیں کہ ان کو بگٹی یا زرکانی کہا جاتا ہے
جسٹس (ر) میر خدا بخش مری بجارا نی نے آگے چل کر بگٹی قبیلے کی بنیادی شاخیں اور شاخیں بیان کی ہیں قبیلے کی چھہ بڑی شاخیں اور 44 پار وں کے نام دیئے گئے ہیں ایم لونگ ورتھ ڈیمز نے اپنی کتاب بلوچ قبائل میں صفحہ نمبر92 اور 93 پر بگٹی قبائل کی ان شاخوں اور پاڑوں کی تفصیلات اس طرح سے دی ہے کہ بگٹی قبیلہ بنیادی طور پر چھ شاخوں میں منقسم ہے یہ چھ شاخیں اس طرح سے ہیں ان میں را ہیجہ سردار خیل ہے ( نواب اکبر بگٹی کا تعلق اسی پاڑے سے ہے ڈیرہ بگٹی میں راہیجہ ہی کا کنٹرول ہے ، )نوتھانی، مسوری ریاری (شمبانی) کلپر اور پھونگ شامل ہیں ان چھ پارں کے44 شاخیں زرکانی ، پیروزئی، نوسانی، ببرک زئی کرمان زئی قاسمانی،مندوانی،سہگانی، نوسانی،شلوانی،بگرانی، فیروزئی، رامزئی ہیں ۔ر وسی ر یسرچ اسکالر م ک پیکولین اپنی کتاب بلوچ کے صفحہ نمبر 77 پر لکھتے ہیں کہ بگٹی بھی مری قبیلہ کی طرح تعداد کے لحاظ سے کوئی بڑا قبیلہ نہیں تھا یہ قبیلہ بعد میں تدریجی طور پر دوسرے بلوچ قبائل حتیٰ کہ غیر بلوچ قبیلوں کے مہاجروں اور حتیٰ کہ کبھی پورے گروپوں مثلا ڈومبکی قبیلہ کے چاکرانی گروپ کے جذب ہو جانے سے وسعت پاگیا ( جیسا کہ احمد شاہ ابدالی اور مرہٹوں کے درمیان پانی پت میں ہونے والی جنگ کے دوران غلام بننے والے مرہٹوں کو ڈیرہ بگٹی میں لایا گیابعد میں یہ اب بگٹی قبیلہ کا حصہ بن گئے ر وسی ر یسرچ اسکالر م ک پیکولین اپنی کتاب بلوچ میں مزید لکھتے ہیں کہ بگٹی قبیلے کو کنٹرول کرنے والے موروثی سردار یا تمندار ہیں جو ڈیرہ بگٹی میں دائمی رہائش رکھتے ہیں مری اور بگٹی قبیلے کی ایک قلیل تعداد ترکما نستان کی ریاست میں بھی رہتی ہے اس وقت وہ بلوچی سے زیادہ ترکمانستانی زبان زیادہ بولتے ہیں کچھ بگٹی سندھ میں لاڑکانہ کے نزدیک بلوچستان کے سرحدی علاقے سے متصل بھی مقیم ہیں جہاں ان کو انگریزوں کے دور میں اس لئے بسایا تھا کہ پیر آف پگارا کے حر مریدوں کے مقابلے میں اپنے ہمدرد رکھے جاسکیں ،
جب انگریزوں نے1839 میں سندھ اور اس علاقے پرپر قبضہ کرنا شروع کیا اور کراچی کی بندرگاہ پر قبضہ کرکے اس کو اپنا مرکز بنا لیا تو اس وقت انگریز افواج مریوں اور بگٹیوں کے علاقے میں داخل ہو گئیں انگریز فوج میجرملا مور کی زیر قیادت 1839 میں ڈیرہ بگٹی اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں داخل ہوئی اور بگٹی سردار کو قید کرلیا اور ڈیرہ بگٹی پر قبضہ کرلیا انگریز افواج نے1843 ہی میں بگٹیوں کے علاقے میں واقع کیان کے قلعے پر قبضہ کرکے کیان کو اپنا مرکز بنالیامگر بگٹی قبائل نے چھاپہ مار جنگ کا آغاز کیا
جنوری 1845میں سر چارلس نیپئیر کی زیر قیادت بگٹی قبائل کے خلاف کارروائی کی گئی بگٹی ڈیرہ بگٹی چھوڑ کر اپنے ہمسایوں اور سندھ میں پناہ لینے کے لئے چلے گئے جہاں ان کی جانب سے وقتا فوقتاانگریز حکومت کے خلاف کارروائی کی جاتی رہی مگر 1847 میں فرسٹ سندھ ہارس کے ایک دستہ نے کرنل سر ڈبلیو میری ویدر( کراچی میں میری ویدر ٹاور ان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے) کی سرکردگی میں بگٹیوں کی ایک بڑی فوج کو بری طرح سے شکست دی جس کے نتیجے میں ان کی آدھی نفر ماری گئی اور بقیہ قید کرلی گئی جس کے نتیجے میں انکی طاقت ٹوٹ گئی ایک ایک کرکے تمام بگٹی سردار انگریزوں کے سامنے سر تسلیم خم کرتے چلے گئے ان میں سے بہت سوں کو اس وقت لاڑکانہ کے قریب زمین دی گئی اور بگٹی و مری انگریز افواج کا حصہ بن گئے یہ ہی وجہ ہے کہ اس خطے میں انگریزوں کا پہلا مرکز سبی میں بنا جس کے نزدیک ہی بگٹیوں کامرکز ہے اس علاقے کی حفاظت باقائدہ بگٹی اور مری کرتے رہے 1875 میں میجر سنڈی مان نے مری اور بگٹی سرداروں کو طلب کیا اور ان سے کہا کہ اگر آپ ہمارے ساتھ ہیں تو قلات جانے کے لئے تیاری کریں مری اور بگٹی قبائل کی مدد سے انگریز افواج نے قلات پرحملہ کرکے بلوچ ریاست قلات کے دارلحکومت پر قبضہ کرلیااور اس وقت کے قلات کے حکمران نواب محراب خان انگریزوں کی فوج( جس میں بگٹی اور مری اور دیگر بلوچ قبائل بھی شامل تھے )کے خلاف لڑتے ہوئے مارے گئے جس کے بعد 1876 میں کوئٹہ پر قبضہ کرکے انگریزچھاؤنی اور مرکز قائم کیا گیا
بگٹی قبیلے کے موجودہ سربراہ نواب اکبر بگٹی کا اصل و پیدائشی نام شہباز خان ہے نواب اکبر بگٹی کی تاریخ پیدائش 12 جولائی 1926 ہے ابتدائی تعلیم کراچی کے گرائمر اسکول سے حاصل کی پھر چیفس کالج لاہور سے تعلیم مکمل کی نواب اکبر بگٹی اپنے بڑے بھائی نوابزادہ عبدالرحمان بگٹی کے بجائے 1939 میں اپنے والد نواب محراب خان بگٹی کے انتقال کے وقت بلوچ قبیلے کے سردار اس لئے بنائے گئے کہ ان کے بڑے بھائی عبدالرحمان بگٹی انگریز دشمن تھے اور انگریز ان کو سخت نہ پسندیدہ نگاہوں سے دیکھتے تھے اس لئے انگریزوں نے نواب محراب خان کی وفات کے بعد 14 سالہ اکبر خان بگٹی کو جو کمسن تھے بگٹی قبیلے کا سردار بنا دیا اس وقت اگر چہ نواب اکبر بگٹی جو چیفس کالج لاہور میں تعلیم حاصل کررہے تھے سردار بنا دئے گئے اس وقت ان کی کم عمری کی وجہ سے خان بہادر جمال بگٹی کو قبیلے کا نگران مقرر کیا 1947 میں شہباز بگٹی المعروف اکبر خان بگٹی نے بگٹی قبیلے کے سردار کی حیثیت سے باقائدہ زمہ داریاں سنبھالیں اور ان کو تمام اختیارت دے دئے گئے( نواب اکبر بگٹی نے ایک انٹر ویو کے دوران کہا تھا کہ بلوچ قبیلہ کاسربراہ سردار ہوتا ہے نواب نہیں میں نواب نہیں ہوں ) 1949 میں پی ایس پی کے ایک کورس میں شرکت کی 1951 میں ایجنٹ ٹو دی گورنر جنرل کے مشیر برائے تعلیم ، صحت بحالیات و اطلاعات مقرر ہوئے 1957 سے 1958تک ملک فیروز خان نون کی کابینہ میں وزیرمملکت برائے امور داخلہ اور دفاع مقرر ہوئے اسی عرصے میں انہوں نے ری پبلیکن پارٹی میں شمولیت بھی اختیار کی ایوب خان کے دور میں نواب اکبر خان بگٹی زیاد ہ عرصہ جیل میں رہے ابتدا میں انہیں فوج کشی کے بعد گرفتار کیا گیا اس کے بعد ان کو قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا اس وقت ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے بھائی احمد نواز بگٹی کے سسر حاجی ہیبت خان کو قتل کیا ہے اس الزام میں نواب اکبر بگٹی کو موت کی سزا سنائی گئی ایک قبائلی روائت کے مطابق انہوں نے اس وقت پچاس ہزار روپیہ خون بہا ادا کرکے رہائی حاصل کی اس دوران نواب اکبر بگٹی کراچی سینٹرل جیل میں بھی رہے سردار شیر باز مزاری کا کہنا ہے کہ اکبر بگٹی کی سزائے موت ختم کرنے والوں میں ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھے نواب اکبر بگٹی کا کہنا ہے کہ ان کو سزائے موت سے معافی ایک پشتون سردار کی وجہ سے ملی جس نے اپنی پگڑی اتار کر ایوب خان کے قدموں پر رکھ دی تھی رہائی کے بعد سردار عطا ء اللہ مینگل کے ساتھ مل کر نواب اکبر بگٹی نے نیپ کے لئے کام کیا 1970 کے انتخابات میں اکبر بگٹی نے نیشنل عوامی پارٹی نیپ کا ساتھ دیا تھا مگر جب نیپ نے جے یو آئی کے ساتھ مل کر بلوچستان کی حکومت تشکیل دی تو اس وقت اکبر بگٹی کو نظر انداز کیا گیا ان کے بھائی احمد نواز بگٹی نے نیپ کی حکومت کاساتھ دیا اور نیپ کی صوبائی حکومت میں وزیر بھی بنے جس کو کبھی بھی اکبر بگٹی نے معاف نہیں کیا (جب احمد نواز بگٹی نیپ کی حکومت میں وزیر تھے اس وقت نواب اکبر بگٹی نے پچاس کے قریب بگٹیوں کو کوئٹہ سیکرٹریٹ بھیجا تاکہ اپنے بھائی احمد بگٹی کی وفا داریاں تبدیل کردیں مگر انہیں ناکامی ہوئی ) مگر جلد ہی نیپ کا انتقام انہوں نے اس طرح سے لیا کہ جب زولفقار علی بھٹو کی جانب سے بلوچستان میں سردار عطا ء اللہ مینگل کی حکومت کو برطرف کیا گیا تو نواب اکبر بگٹی نئی حکومت کے گورنر مقرر کئے گئے نواب ا کبر بگٹی ہی کے دورمیں فوجی آپریشن شروع کی گیا ایک بلوچ قوم پرست رہنما طاہر بزنجو اپنی کتاب بلوچستان کیا ہوا کیا ہوگاکہ صفحہ نمبر 148 پر اس طرح سے لکھتے ہیں کہ
بگٹی صاحب نے کیا کیا آپ بخوبی واقف ہیں کچھ مہینوں کے بعد بلوچ لیڈروں کو جیلوں میں ڈالا گیا میر غوث بخش بزنجو ، سردار عطال ء اللہ مینگل ، نواب خیر بخش مری میر گل خان نصیر میر محمود عزیز کرد میر بیزن ، میر امیر الملک مینگل ، اور دوسرے بہت سے رہنما گرفتار کر لئے گئے
طاہر بزنجو اپنی کتاب بلوچستان کیا ہوا کیا ہوگا میں اس سے قبل صفحہ نمبر88 پر اس طرح سے لکھتے ہیں کہ،،جب نواب اکبر بگٹی 1973 مٰن بلوچستان کے گورنر بنے اور میر غوث بخش بزنجو جیل مین تھے تو بزنجو صاحب کے آبائی گاؤں (نال) میں کتنے لوگ خوف سے اس کے خاندان کے لئے چینی اور آٹا لاتے تھے کیونکہ ان ( غوث بخش بزنجو ) کی راشن بندی کی گئی تھی جرم بقول نواب اکبر بگٹی میر غوث بخش بزنجو نے کیا تھا اور سزا اس کے بے گناہ خاندان کے لوگ بھگت رہے تھے ،،
مگر جلد ہی زوالفقار علی بھٹو کے ساتھ اختلافات کی بنیاد پر انہوں نے حکو مت سے استعفیٰ دیدیا اس کے بعد کی مدت انہو ں نے خاموشی کے ساتھ گزاری 1977 کے بعد کچھ عرصہ کے لئے تحریک استقلال میں بھی شامل رہے جنرل ضیاء الحق کے دور میں زیادہ تر ان کے متنازعہ بیانات نے تمام ملک کے عوام اور پریس کی توجہ ان کی جانب مبذول رکھی یہ ہی وجہ ہے کہ 985 کے غیر جماعتی انتخابا ت میں انہوں نے خود شرکت نہیں کی ان کی جگہ ان کے بھائی احمد نواز بگٹی اور ان کے بیٹے مرحوم سلیم اکبر بگٹینے انتخابی عمل میں حصہ لیا 17اگست 1988 کو جنرل ضیا ء الحق کے طیارے کے تباہ ہونے کے بعد ملک میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل سردار عطا ء اللہ مینگل اور بی ایس او کے سابق چئیر مین ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اور ان کے ساتھی ڈاکٹر مالک بلوچ ایوب بلیدی کے ساتھ مل کر بلوچستان نیشنل الائینس بی این اےBNA بنائی جس نے انتخابات میں سردار عطا ء اللہ مینگل کے قدیم ساتھی سردار غوث بخش بزنجو کو بری طرح سے شکست سے دو چار کیا خود غوث بخش بزنجو اپنے سابق شاگرد اور بی ایس او کے رہنما منظور گچکی کے ہاتھوں بری طرح شکست س دوچار ہوئے اس اتحاد کے نتیجے میں بی این اے نے قومی اسمبلی کی تین اور صوبائی اسمبلی چھ نشستیں حاصل کی نواب اکبر بگٹی نے بی این اے اور جمعیت علمائے اسلام ، اور آئی جے آئی کے اشتراک سے صوبائی حکومت تشکیل دی بلوچستان میں نواب اکبر بگٹی5-21989 کو بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے مگر اپنی نت نئی اور نرالی پالیسیوں کے نتیجے میں وہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ زیادہ مدت تک نہیں رہ سکے ان کی وزارت اعلیٰ کے دور کی چند یادگاروں میں بلوچستان اسمبلی کی عمارت ہی جس کا نقشہ انہوں نے منظور کیا تھا اس کے علاوہ ان کے دور کا وہ کارنامہ بھی ریکارڈ کاحصہ ہے جب انہوں نے بلوچستان کے سب سے انتہائی اہم صنعتی علاقے حب انڈسٹریل ایرئے اور گڈانی شپ بریکنگ میں سندھ کے اور گیر مقامی صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کے داخلے پر پابندی عائد کردی انہوں نے اس طرح سے یہ قدم اٹھایا کہ سندھ کے بعض صنعتکاروں کو تو اس لئے گرفتار کرلیا کہ صرف مقرر کردہ وقت کے بعدلسبیلہ میں داخل ہوئے تھے سردار اکبر بگٹی کے ان اقدامات کی وجہ سے اس علاقے میں آنے والے صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں نے حب بلوچستان کی جگہ پاکستا ن کے دوسرے علاقوں کا رخ کر لیا اس لے نتیجے میں حب انڈسٹریل ایریئے میں پھر دوبارہ اس طرح سے انویسٹمنٹ نہ ہوسکا جسطرح اس سے قبل ہورہا تھا بی این اے کا یہ اتحاد زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکا جلد ہی اس اتحا د کی ہنڈیا بیچ چوراہاے پر اس طرح سے ٹوٹی کہ نواب اکبر بگٹی نے نے جلد ہی اپنی علیحدہ جماعت جمہوری وطن پارٹی بنائی جس کا انگریزی مفہوم نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی بنتا ہے (جو ان کے بہنوئی سردار شیر باز خان مزاری کی جماعت تھی جب کہ سردار عطا ء اللہ مینگل اور ان کے بیٹے سردار اختر مینگل نے بی این پی بنائی یہ ان کی حکومت کی اہم ترین یادگارہیں 07-08-1990 کو نئے انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی ان کی حکومت کاخاتمہ ہوا نئی کئیر ٹیکر حکومت کے وزیر اعلیٰ ان کے داماد ہمایوں خان مری بنے اگر چہ نئے انتخابات میں جمہوری وطن پارٹی نے صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی مگر نواب اکبر بگٹی کی حکومت کے نتائج کو چکھنے اور برتنے والے بلوچ رہنماؤں کی اب مکمل طور پر کوشش تھی کہ کسی بھی طرح سے نواب اکبر بگٹی کو صوبے کا وزیر اعلیٰ نہ بننے دیا جائے یہ ہی وجہ ہے کہ جب صوبائی اورقومی اسمبلیوں کے انتخابات کے بعد بلوچستان میں نئی حکومت قائم کی گئی تو اسوقت کے قائد حزب اختلاف اکبر بگٹی ہی بنے 1993کے عام انتخابات میں نواب اکبر بگٹی نے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 202 سے انتخاب لڑا اور کامیاب رہے
جمہوری وطن پارٹی اور بگٹی قبیلے کے سربراہ اورسابق گورنر بلوچستان نواب اکبر بگٹی کی جانب سے چند ماہ قبل کہا گیا تھا کہ ہ ڈیرہ بگٹی میں حکومت کی جانب سے آپریشن کیا جارہا ہے اس وقت نواب اکبر بگٹی نے کہا تھا کہ بڑے ہتھیاروں کی زبان سے مذاکرات ہو رہے ہیں آپریشن کا دائرہ ڈیرہ بگٹی تک بڑھا دیا گیا ہے گولہ باری ہمار ے سروں پر ہو رہی ہے اور مختلف مقامات پر حکومت کی جانب سے بمباری بھی کی گئی جمہوری وطن پارٹی کے سیکرٹری جنرل شاہد بگٹی نے وجود سے بذریعہ موبائل فون گفتگو کرتے ہوئے کہا تھاکہ ڈیرہ بگٹی میں فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے ایک سوال کے جواب میں شاہد بگٹی نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ہماری جانب سے کسی طرح کی کوئی فائرنگ کی جائے کیونکہ کبھی کسی کمزور کی جانب سے طاقتور کے خلاف کوئی حملہ نہیں کیاجاتا ہے جمہور ی وطن پارٹی کے سیکرٹری جنرل شاہد بگٹی کے اس بیان کے بعد واقعات کے تسلسل نے ثابت کیاجمہور ی وطن پارٹی کے سیکرٹری جنرل شاہد بگٹی کے اس بیان میں حقائق کم اور جذبات زیادہ تھے جس کے بعد تو بلوچستان میں اس وقت جو لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بگڑتی چلی گئی ا س صورتحال میں جس کا اس وقت بلوچستان کے بلوچ علاقوں کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے ان واقعات میں آخر کون ملوث ہے ؟ دہشت گردی کی یہ تازہ لہر اس وقت شروع ہوئی تھی جب صدر جنرل پرویز مشرف کوہلو میں حکومت کی جانب سے ترقیاتی پروجیکٹ کے افتتاح کے لئے گئے اس موقع پر صدر جنرل پرویز مشرف کے جلسے پر نامعلوم سمتوں سے راکٹ فائیر کئے گئے اس واقعے کے دوسرے روز ہیلی کاپٹر پر جس میں اعلیٰ فوجی افسران سوار تھے راکٹوں کے زریعے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہوگئے جس کے بعد سے بلوچستان میں مستقل بد امنی اور لا اینڈ آرڈر کے بگڑنے کی خبریں ملتی رہی ہیں خضدار میں نامعلوم افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں ایف سی کے دو اہلکار جان بحق ہوگئے ہیں اسی طرح سے سبی شہر میں نامعلوم افراد نے ڈ یڑھ سو فٹ طویل ریلوے پل کو بم سے اڑادیا ہے ضلع لسبیلہ کے اور بلوچستان کے اہم ترین شہر حب کے سرکاری ریسٹ ہاؤس کے باہر جہاں ڈی آئی جی ٹھیرے ہوئے تھے چوتھی بار بم کا دھماکہ کیا گیا ہے ڈیرہ بگٹی میں مسلح افراد اور سیکیورٹی فورسیز میں جھڑپو ں کی اطلاعات مسلسل ہی مل رہی ہیں سرکاری زرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق مسلح قبائلیوں نے ایف سی کی ڈولی چیک پوسٹ پر راکٹوں کے ساتھ حملہ کیا
ان اطلاعات کہ اب کلپر بگٹی مسوری بگٹی اور نواب اکبر بگٹی کے رشتہ دار احمدان بگٹی واپس آ نا شروع ہو چکے ہیں ان میں سب سے سب سے پہلے کلپر بگٹیوں کے سربراہ خان محمد وڈیرہ بگٹی کی اپنے قبیلے کلپر بگٹی کے ساتھ سوئی اور ڈیرہ بگٹی واپسی کو اگر چہ مبصرین اور نامہ نگار بلوچستان کی تاریخ کا ایک اہم ترین باب قرار دے رہے ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وقت اس علاقے کے حالات کا بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیا جائے اور اس کے مطابق عمل کیا جائے